موت پھرتی ہے بال کھولے ہوئے ان گنت لوگ بے سراغ ہوئے وہ گھٹا ٹوپ ظلمتیں اُٹھیں شہر کے شہر بے چراغ ہوئے ہم کو انسانیت پکارتی ہے سب کو مل کر جواب دینا ہے کتنے معذور بے سہارا ہیں کتنی بیوائیں بے رِدا ہیں آج کتنی آبادیوں میں ماتم ہے کتنے انسان بے نوا ہیں آج ہم کو انسانیت پکارتی ہے سب کو مل کر جواب دینا ہے زندگی زخم زخم پھرتی ہے ہم کو ایک ایک زخم بھرنا ہے جو بھی ہم دے سکیں وہ دینا ہے جو بھی ہم کر سکیں وہ کرنا ہے