ٹوئنٹی منٹس ڈرائیو
ٹوئنٹی منٹس ڈرائیو
" شکفتہ بی بی آپ کے بھائی لینے آ گئے ہیں" دستک کے بعد ذرا سا درازہ کھلا ہی تھا کہ تپش کی شدید لہر اور اس کے عقب میں رحمت کا چہرہ نمودار ہوا۔ رحمت کی آواز گویا میرے لئے آزادی کا پروانہ تھی۔ بھوک اور تھکن دونوں نے فریاد بلند کی کہ سب کچھ جہاں ہے کی بنیاد پر چھوڑ کے نکلنا چاہئے۔ بکھری میز کو سمیٹنے اور کمپیوٹر کو خاموش کرنے میں اگر میں جلدی بھی کرتی تو دومنٹ کہیں نہیں گئے تھے اور اس کا مطلب یہ کہ گھر تک پہنچنے میں ابھی کم از کم 22 منٹ ہیں۔
رحمت اطلاع دے کر واپس جا چکا تھا۔۔۔ اس کی عادت ہے وہ کمرے میں اندر نہیں آتا بس دروازے سے ہی دستک دے کر بات کر لیتا ہے پھر وہیں سے واپس ہو جاتا ہے۔ ابھی بھی وہ داخل نہیں ہوا تھا۔ اطلاع دے کر وہیں سے پلٹ گیا تھا لیکن تپش کی جو لہر اندر داخل ہوئی تھی وہ اندر ہی رہ گئی تھی میری سوچ میں سوال اٹھانے کو۔۔۔ ایسے سوال جن کا جواب صرف انسانیت کے دائرے میں آتا ہے اور وہی انسانی معاشرے میں نہیں موجود۔۔۔ انسان دنیا میں کتنے ہیں؟
بکھری میز کو سمیٹنا میری ذمہ داری نہیں لیکن آپا کے چہرے پر اتنی تھکن ہوتی ہے کہ میں خود ہی یہ کام کرلیا کروں۔۔۔ میں دو منٹوں کو دو سے تقسیم کیا جواب آیا ایک۔۔۔ میں ایک منٹ لگایا، فائیلیں واپس سجائیں، سسٹم خاموش کیا فالتو کاغذ ڈسٹ بن میں، گلاس میں تھوڑا سا پانی رہ گیا تھا پیا اور پرس اٹھایا دروازہ کھول باہر قدم رکھا ہی تھا کہ جہنمی تپش باہر جیسے استقبال کو منتظر۔ رحمت گیٹ سے کچھ فاصلے پر بیٹھا ہوا تھا، دھوپ میں گلتا سڑتا۔۔۔ اپنی تقدیر کا پزل مکمل کرتا ہوا۔۔۔مجھے خدا سے شکوہ ہوا۔ اس نے انسانوں کو انسان کا ہی غلام بنانے سے کیوں نہیں روکا۔ اس سے پہلے کہ وہ گیٹ کھولنے کے لئے اُٹھتا میں گیٹ کی جانب قدم بڑھا دئے
میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ پلک جھپکتے میں گھر پہنچ جاؤں۔ روزانہ کے برعکس آج یہ وقت گذارنا کچھ مشکل لگ رہا تھا تھکن اور بھوک کے سبب۔۔۔پھر سوچا کہ آج باہر کی دنیا دیکھی جائے ورنہ فمزا کا خیال یہی ہے کہ مجھے دنیا سے کوئی نہیں سروکار چاہے کچھ بھی ہوتا رہے۔ روازنہ اسی وقت گھر آتے ہوئے میں اپنی ہی دنیا میں مگن ہوتی ہوں۔۔۔ مجھے ساری آمد اسی وقت ہونی۔۔۔ یوں میں اپنے اندر کی دنیا سے ابھی باہر ہی نہیں نکل پاتی کہ گھر سامنے آجاتا۔
میں ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔۔۔ اتنے عرصے میں دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی سب کچھ ویسا ہی۔ مجھے کچھ دلچسپی نہیں محسوس ہوئی۔۔۔ اب کیا کرنا چاہیے کیسے وقت گذارا جائے۔۔۔ اسی اُدھیڑبن میں دس منٹ تو کم ہو چکے تھے اب صرف دس منٹ کا سفر باقی تھا۔۔۔کچھ اطمینان ہوا۔۔۔ میں پھر نظر اٹھائی۔۔۔ یہ اس بڑے شہر کی ایک مشہور و معروف چورنگی ہے۔۔۔ کبھی کبھی ہی یہاں ٹریفک سگنل کُھلا ملتا ہے ورنہ کچھ دیر انتظار میں یہاں رُکنا پڑتا ہے جب تک کہ سگنل کھل جائے۔ اور آج اتفاق سے سگنل کھلا تھا یعنی رُکنا نہیں پڑا۔۔۔ لیکن اچانک گذرتے ہوئے میری نظر اس لڑکے پر پڑی۔۔۔کالا بھجنگ۔۔۔ دبلا پتلا۔۔۔کڑکتی دوپہر میں کھلے آسمان تلے وہ اس اُجلی چورنگی کے اُجلے پس منظر میں اپنی چمکتی سیاہ رنگت کی بدولت خوب نمایاں تھا۔۔۔ لباس کے نام پر اس کے جسم پر اگر کچھ تھا تو وہ ایک عدد پھٹی پرانی میلی قمیض جسے وہ پہنے ہوئے نہیں تھا بلکہ عجیب طرح سے اپنے گرد لپیٹی ہوئی تھی جسم کو چھپانے کے لئے
وہ ایک ہاتھ سے اس قمیض کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا اوردوسرا ہاتھ وہ اُٹھا لیتا تھا مانگنے کے انداز میں جب کوئی اس کے قریب سے گذرتا۔۔۔
ہم چشمِ زدن میں آگے نکل چکے تھے۔۔۔کالا بھجنگ پیچھے رہ گیا تھا لیکن مجھے اپنی وارڈ روب اچانک بے معنی لگنے لگی۔۔۔ ابھی صبح ہی تو میں امی سے مزید نئے کپڑوں کی فرمائش کی تھی
میں اپنی توجہ درختوں کی جانب مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ اگلی چورنگی آنے سے ایک اسٹاپ پہلے نظر ان افراد پر پڑی جو بس کے انتظار میں تھے لیکن ایک عجیب بات ہوئی ایک خاتون بس کی جانب بڑھنے کے لئے قدم اٹھایا ہی تھا کہ اچانک سڑک پر گر گئیں لوگ بس پر چڑھنے میں مگن اور وہ سڑک پر گری ہوئی۔۔۔ پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا ہے اور پھر جب کچھ سمجھ میں آیا تو وہ خاتون کافی پیچھے رہ گئی تھیں۔۔۔ میرا دل چاہا بھیا سے رکنے کو کہوں لیکن فاصلہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔۔
باہر کی دنیا دیکھنے کو اب دل نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔ میں درختوں میں گم ہونا چاہا۔۔۔ فٹ پاتھ کے کنارے لائن میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سجے سب درخت اپنی قدوقامت پر مغرور جھول رہے تھے، مجھے سب سے خوبصورت درخت دیکھنے کی جُستجو ہوئی اور وہ بھی جلد ہی نظر آگیا۔ بہت بلند شاخیں ہرے بھرے پتوں سے شاداں و فرحاں اس طرح پھیلی ہوئی تھیں جیسے کسی نے پیمائش ناپ کے ایک مکمل جیومیٹری ترتیب دے ڈالی ہو، مجھے بہت خوشی ہوئی یہ حسن دیکھ کر۔۔۔ میری نظریں درخت کی بلندیوں کو چھوتی نیچے آنے لگیں۔۔۔ پر نیچے پہنچتے ہی میری خوشی اور اس قدرتی حسن دونوں کو گرہن لگ گیا۔۔۔ نجانے کس نے فٹ پاتھ پر درخت کے تنے کے ساتھ ہی گلے سڑے پھل بہت زیادہ تعداد میں اور آدھی دیگ برابر سڑی ہوئی بریانی پھینک دی تھی۔۔۔ حالانکہ ایک صاف ستھرا بھائیں بھائیں کرتا کچرادان تھوڑے ہی فاصلے پر موجود تھا۔۔۔وہ شاید اس لئے اب تک صاف تھا کہ استعمال نہیں ہوتا تھا۔۔۔ ایک آٹھ نو سالہ بچہ اپنی چھوٹی بہن کو لئے دونوں اس سڑاند سے اپنے پیٹ میں ڈالنے کے لئے کچھ ڈھونڈ رہے تھے
میری بھوک ختم ہونے لگی، مجھے لگا جیسے اب کبھی بھی کچھ نہیں کھایا جاسکتا۔۔۔ بھوک مٹتی چلی گئی اور وہ دونوں بہن بھائی دو نقطوں میں تبدیل ہوتے گئے۔۔۔ ہم پھر آگے نکل چکے تھے۔۔۔
مجھے بے اختیار خواہش ہوئی کہ کچھ مختلف دیکھوں۔۔۔ کچھ ایسا مختلف جو ابھی تک کی ان تکلیف دہ باتوں سے ہٹ کر ہو۔۔۔جو خوشی دے سکے۔۔۔ مجھے ایک بار پھر نظریں اٹھانی تھیں لیکن کچھ بھی ایسا نہیں نظر آیا۔۔۔ اس یک طرفہ سڑک پر گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں اور سب گاڑیاں اپنی تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہی تھیں آگے ہی آگے۔۔۔ اور آگے۔۔۔ آور آگے بس بڑھتے جانا، بڑھتے جانا۔۔۔ ہم سب جلدی میں ہیں۔۔۔ میں ادھر ادھر دیکھنا بند کر دیا اور گھڑی پر نظر ڈالی۔۔۔ کچھ اور فاصلہ کم ہو چکا تھا، اب صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے تھے جب وہ شادی شدہ جوڑا سامنے آگیا۔ دونوں خوش نظر آرہے تھے اور اچھے لگ رہے تھے۔۔۔ کیا یہ دونوں لڑتے بھی ہوں گے مجھے الٹا خیال سوجھا لیکن تب شاید یہ دونوں اتنے اچھے نہ لگیں جیسے ابھی اس خوشی کے عالم میں لگ رہے ہیں، میں پھر انھیں دیکھا۔۔۔ لیکن وہ دونوں تو ایک تین پہیوں والی سائیکل پر سوار تھے۔ ایسی سائیکلوں پر اس سے پہلے میں چلنے پھرنے سے معذور مردوں کو ہی سوار دیکھا تھا۔ آج پہلی بار دیکھا کہ میاں بیوی دونوں ایسی سائیکل پر سوار تھے۔۔۔ بیوی معذور نہیں تھی یہ سائکل اس کے شوہر کی تھی جسے وہ اپنے ہاتھوں سے چلا رہا تھا نہیں معلوم اس کی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں یا پھر ایک۔۔۔ وہ اس طرح بیٹھا تھا کہ پتہ نہیں چل سکا۔۔۔ آج ضرور دونوں نے ڈیٹ پر جانے کا فیصلہ کیا تھا :) مجھے ہنسی آ گئی، اچھا ہے دونوں کو ڈیٹ پر تو ضرور ہی جانا چاہیے :) زندگی ان کے لئے ایک ہی وقت میں خوبصورت زیادہ تھی یا بدصورت۔۔۔ اگر یہ شخص اس سائیکل کا محتاج نہ ہوتا تو کیا اس وقت اس سے زیادہ خوش نظر آسکتا تھا جتنا کہ ابھی اس وقت خوش نظر آرہا تھا۔۔۔ میں اپنے سوالوں کو بریک لگائی دکھ بڑھ رہا تھا۔ میں کچھ مختلف دیکھنا چاہ رہی تھی، میں مختلف ہی دیکھا تھا۔۔۔ لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ کچھ مختلف دیکھنے کی خواہش رکھنے کی قیمت ایسی بھی ہوسکتی ہے
اب صرف دو منٹ رہ گئے تھے گھر پہنچنے میں۔۔۔ آج میں باہر کی دنیا میں رہنے کا ارادہ کیا تھا فمزا کو بتانے کے لئے کہ میں بیرونی دنیا دیکھی۔۔۔ لیکن ان چند منٹوں نے مجھ سے بہت کچھ چھیننے کی کوشش کی تھی، اور چھین کے لے جا رہے تھے۔۔۔ مجھے باہر کی دنیا دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی تھی میں دکھی ہوگئی تھی، مجھے لگ رہا تھا بس ایک بے بسی ہے ہر جانب اور سب لوگ بے بس۔ مجھے دنیا سے بیزاری ہو رہی تھی۔ مجھے آئندہ سب زندگی سے بیزاری ہو رہی تھی، کچھ بھی اچھا نہیں تھا، نہ کچھ کھانے کو دل باقی رہا تھا نہ نئے لباس کو اور نہ ہی کبھی خوش ہونے کو۔ ایک مستقل رہبانیت اگلے قدم پر میری منتظر تھی۔۔۔ خدا نے سب کو بس چھوڑ دیا ہے ہر جانب مسائل ہیں۔ اس سے پہلے کہ میرا ایمان سوال کی شکل اختیار کرتا میرے پاس صرف دومنٹ باقی تھے مجھے خدا پر اپنے ایمان کو سوال بننے سے روکنا تھا۔۔۔ مجھے ان دومنٹوں میں کوئی امید کی کرن تلاشنا تھی۔ کچھ تھا جو نظر انداز ہوا تھا۔۔۔ شاید۔۔۔ کہیں کچھ کمی رہ گئی تھی۔۔۔ لیکن کیا۔۔۔ اور۔۔۔ کہاں۔۔۔؟؟
میں اپنا سفر اٹھارہ منٹ پیچھے سے دوبارہ سے شروع کیا۔۔۔
اٹھارہ منٹ پہلے میں رحمت کو خدا حافظ کہا تھا۔ رحمت اپنی تقدیر کا پزل مکمل کر رہا ہے دھوپ کی شدت میں ہر روز گلتے سڑتے ہوئے۔ اور جب یہ پزل مکمل ہوچکا ہوگا تو تب موت کا فرشتہ بلا تاخیر دستک دے دے گا۔ رحمت دنیا سے چلا جائے گا لیکن اس کے بچے جو آج علم حاصل کر رہے ہیں وہ اپنی اپنی تقدیر کے پزل مکمل کرتے ہوئے اس طرح گلنے سڑنے سے ضرور خود کو بچا سکیں گے۔۔۔ ممکن ہے وہ کوئی ایسی علمی جہت ڈھونڈ نکالیں جس کی بنا پر انسان اپنا قد بلند کر سکے۔ پھر یقیناً کئی رحمت گلنے سڑنے سے بچ جائیں گے۔
یہ صرف ایک امید تھی۔۔۔ میری تسلی نہیں ہوئی۔۔۔ میں آگے بڑھ گئی۔۔۔ سامنے ہی کالا بھجنگ لڑکا بے لباس بیٹھا ہوا تھا اور رواں دواں گاڑیوں کا ہجوم اور سُوٹڈ بُوٹڈ گذرتے لوگ، کسی کو اسے دیکھنے کی فرصت نہیں تھی۔ تبھی یاد داشت کی اسکرین پر ایک چھوٹا سا بچہ اُبھر آیا جو بڑے سائز کے چند تولئے اُٹھائے اس چورنگی پر بیچتا روز نظر آتا تھا۔ وہ بچہ اس بے لباس کی جانب اپنا سب سے بڑے سائز کا تولیہ لئے بڑھ رہا تھا اسے بغیر کسی قیمت دینے کے لئے۔
یہ تولیہ آخر کیا کر سکتا ہے۔۔۔ کچھ دھوپ سے بچائے گا، کچھ پسینہ صاف کرنے کے کام آئے گا اور باقی اس کا جسم کچھ مزید ڈھک جائے گا۔۔۔ مجھے اپنی وارڈ روب میں کچھ کشش سی محسوس ہوئی، میرے کئی سوٹ بہت خوبصورت ہیں۔۔۔ مجھے یاد آیا !
ابھی میں اپنی وارڈ روب سے نظر ہٹائی ہی تھی کہ اس اسٹاپ پر اچانک ایک خاتون گرتی دکھائی دیں جو اپنی مطلوبہ بس کی جانب بڑھنے لگی تھیں۔۔۔ وہ گری ہوئی تھیں سڑک پر جبکہ لوگ بس پر چڑھنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ لیکن اسی بس سے ایک لڑکی اور ایک لڑکا نہیں معلوم بہن بھائی تھے یا کلاس فیلوز دونوں کے ہاتھوں میں کتابیں تھیں فوراً ہی نیچے اُترے تھے اور گری ہوئی ہوئی خاتون کی جانب بڑھ رہے تھے مدد کے لئے
مجھے لگا زندگی خوبصورت ہے۔۔۔ فٹ پاتھ پر لگے سب جھومتے درختوں نے میرا خیال پڑھ لیا۔۔۔
پھر اس سب سے زیادہ خوبصورت درخت نے مجھے آواز دی۔۔۔ میں اس کی آواز پر توجہ نہیں کی۔۔۔ میں اُس راہگیر کی جانب دیکھنے لگی جس کے ہاتھ میں بریانی کی ایک تھیلی تھی۔ یہ تھیلی اس نے اپنے لئے خریدی ہوگی لیکن یہ تھیلی اس نے ان دونوں چھوٹے بچوں کو تھما دی۔
میں بھی آج فرمائش کی ہوئی تھی گھر میں کہ دوپہر کے مینیو میں بریانی رکھی جائے۔۔۔ میری بُھوک پہلے سے زیادہ چمک اُٹھی !
تھوڑا آگے وہ دونوں میاں بیوی ڈیٹ پر پہنچنے ہی والے تھے ویسے ہی خوش اور اپنی خوشی میں سرشار ، مگن۔۔۔ اگر یہ دونوں ابھی اسی وقت کسی بات پر لڑنا شروع کر دیں تو کیسے لگیں گے۔۔۔ مجھے پھر ہنسی آ گئی اپنی احمقانہ سوچ پر۔۔۔ بقول فمزا مجھے کبھی سیدھی بات نہیں سوجھتی جب بھی سوجھتا ہے اُلٹا ہی سوجھتا ہے۔
ہم لوگ اب مین روڈ سے سروس روڈ پر مڑ چکے تھے کہ میری نظر اس درخت پر ٹھہر گئی۔ یوکلپٹس کے اس درخت کا تنا مین روڈ اور سروس روڈ کے درمیان موجود کئی فٹ چوڑے خلا کے ایک کنارے سے شروع ہوا تھا اور ایک پُل کی شکل میں سفر کرتا خلا کے دوسرے کنارے تک پہنچ کے زمین میں دھنس گیا تھا یہ پُل ایک آرک کی صورت خلا کے دونوں کناروں پر تن گیا تھا اور اس پُل پر دو یا تین تین فٹ کے فاصلے پر ایک ساتھ تقریباً ایک جیسی شکل کے تین تنے نکل کر سیدھے اُوپر چلے گئے تھے اور یہ تینوں الگ الگ ایک مکمل درخت کی شکل اس خلا پر موجود تھے۔ یہ منظر بہت خوبصورت تھا میں گذشتہ کئی سالوں سے اس جگہ سے ہر روز دن میں کم از کم دو بار ضرور یہاں سے گذرتی ہوں لیکن میں آج پہلی بار اسے دیکھا تھا۔ یہ آرک نما پُل قدرت کی شاندار صناعی تھی۔۔۔ یہ ایک دو دن میں وجود میں نہیں آئی تھی پھر میری نظر کیوں اس سے پہلے نہیں پڑی اس پر
!
سرسری تم جہاں سے گذرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
ایسا ہی ہوتا ہے ہم سرسری لیتے ہیں حقائق کو، زندگی کو۔۔۔ ہمارا مشاہدہ ادھورا رہتا ہے، ہمارا تجربہ خام، ہماری سوچ محدود اور ہمارا عمل محدود تر۔۔۔ ہم جلد مایوس ہو جاتے ہیں پھر ہم راہب بن جاتے ہیں، زندگی سے فرار اور حقائق سے نظر چراتے ہیں۔۔۔ دراصل ہم زندگی کی خوبصورتی میں اپنا حصہ ڈالنے سے ہاتھ اُٹھا لیتے ہیں۔ ہم تنقید کرنے لگ جاتے ہیں اپنے ہی جیسے لوگوں پر، ماحول پر، مسائل پر۔۔۔ ایسا کرتے ہوئے ہم اپنے آس پاس ان چند خوبصورت ناموں کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں جو جیسے بھی بن پڑے زندگی کی تعمیر میں مشغول رہتے ہیں ۔ تنقید بے عمل ہو تو بصیرت پر پردہ بن کے گرتی ہے پھر خوبصورتی سامنے موجود تو ہوتی ہے لیکن نظر نہیں آتی۔
نہیں مجھے رہبانیت نہیں چاہیے۔۔۔گھر سامنے تھا۔۔۔ میں گھر میں داخل ہوئی۔۔۔ اپنے کمرے میں پہنچتے ہی میں پرس اُچھال کے دُور پھینکا۔۔۔ امی میرا بُھوک سے بُرا حال ہے۔۔۔کا نعرہ لگایا۔۔۔وارڈ روب کھولی اس میں ہینگر پر موجود سب ہی میرے سوٹ خوبصورت تھے۔۔۔ اور میں امی کو یہی یقین دلانا تھا کہ ابھی بھی میری وارڈ روب میں جگہ خالی ہے
میں بیس منٹ سفر کا آغاز خدا سے شکوہ کے ساتھ شروع کیا تھا، اس نے خاموشی اختیار کی۔۔۔ دسویں منٹ پر میں خدا سے دوسرا جھگڑا کیا اس نے جواب نہیں دیا۔۔۔ پندرھویں منٹ پر میرا شکوہ مایوسی میں تبدیل ہونے لگا۔۔۔ میں خدا سے بات کرنا چھوڑ دی۔۔۔ اٹھارویں منٹ پر میں خدا کو دھمکی دے دی کہ اب میں خود کچھ نہیں کرنا۔۔۔ اسے جو بھی کرنا ہے کر لے، میں بات نہیں کرنی اس سے۔۔۔ مجھے دو منٹ ختم ہونے سے پہلے پہلے فیصلہ چاہیے۔۔۔ اب فیصلہ مجھے نہیں خود خدا کو کرنا تھا۔۔۔ اسے کرنا پڑا
کیا آپ کو خدا سے جھگڑا کرنا آتا ہے ؟
ایک منٹ۔۔۔ پتہ ہے کیا۔۔۔ خدا پر یقین باقی رکھنا اور اس یقین کی حفاظت بھی دراصل میرے بس کی بات نہیں اس کے لئے بھی خدا کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔۔۔ بس تو پھر خود کو پریشان کرنے کی کیا ضرورت۔۔۔ خدا کو ٹف ٹائم دیتے رہیں۔۔۔ وہ ہے ناں۔۔۔!!
<< Home